The Existence of Allah: Evidence from the Holy Qur’an, Ilm al-Kalam, and Philosophical Arguments

تحقیق و تدوین: زین العابدین  (پی ایچ ڈی سکالر، المعین ریسرچ انسٹیٹیوٹ  فار اسلامک آئیڈیالوجی، لاہور)

وجودِ باری تعالیٰ قرآن مجید، علمُ الکلام اور فلسفیانہ دلائل کی روشنی میں

قرآن دلیل دیتا ہے یا یاد دلاتا ہے؟

یہ بات پہلے طے کر لی جائے کہ قرآن، یونانی منطق کی طرح خدا کو ثابت نہیں کرتا بلکہ قرآن انسان کو اس کے بھولے ہوئے علم کی طرف واپس لاتا ہے۔ اسی لیے قرآن کا اسلوب کہتا ہے:  اَفَلَا تَعْقِلُونَ – اَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ – اَفَلَا يَنْظُرُونَ  یہ زبان علم الکلام کی ہے، یہ اسلوب فلسفۂ فطرت کا ہے اور یہ اپیل عقلِ سلیم کی ہے۔

 اوّلین دلیل: دلیلِ حدوثِ عالم:  قرآن سوال قائم کرتا ہے، مقدمہ نہیں: اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ (سورۃ الطور:۳۵) (کیا یہ بغیر کسی سبب کے پیدا ہو گئے؟ یا خود اپنے خالق ہیں؟) یہ آیت ایک مکمل منطقی قیاس ہے۔

 کبریٰ (Major Premise): ہر حادث (جو نہ تھا پھر ہوا) کسی مُحدِث کا محتاج ہے۔

 صغریٰ (Minor Premise): کائنات حادث ہے (تغیر، زمان، ترکیب، زوال اس پر شاہد ہیں)۔

 نتیجہ (Conclusion): کائنات کا ایک غیر حادث، قدیم، واجب الوجود مُحدِث ہے ۔

 یہی دلیل امام ابوالحسن اشعری، امام ماتریدی اور امام غزالی کے علم الکلام کی بنیاد ہے۔

دوسری دلیل: دلیلِ امکان و احتیاج (Contingency Argument):      قرآن اعلان نہیں، تجزیہ کرتا ہے: یٰٓاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (سورۃ الفاطر: 15) فلسفیانہ مفہوم: ہر ممکن الوجود، محتاج ہوتا ہے، محتاج خود قائم نہیں رہ سکتا اور تسلسلِ علل (Infinite Regress) محال ہے ۔ لہٰذا ایک ایسی ہستی لازم ہے جو غنی بذاتہ ہو ، جو علت نہ ہو بلکہ علتِ اولیٰ ہو یہی ہے: اللہُ الصَّمَد(سورۃ  الاخلاص:۲)۔

تیسری دلیل: دلیلِ نظم (Teleological Argument):   قرآن مشاہدہ پیش کرتا ہے: مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ (سورۃالملک: 3) منطقی نکتہ: نظم بغیر علم کے ممکن نہیں ، تناسب بغیر قصد کے نہیں ہوتا ، مقصد بغیر ارادے کے پیدا نہیں ہوتا لہٰذا یہ کائنات Blind Chance نہیں بلکہ Wise Choice کا نتیجہ ہے۔

 چوتھی دلیل: دلیلِ وحدانیت (Argument against Polytheism):  قرآن ایک عقلی فرضی صورت قائم کرتا ہے: لَوْ كَانَ فِیْهِمَآ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا(سورۃ الأنبیاء: 22) فلسفیانہ تجزیہ: دو مستقل ارادوں سے تصادم پیدا ہوتا ہے اور تصادم فساد  کا ہونا لازم آتا ہے اور کائنات کے نظم میں  فساد کا نہ ہونا ہی وحدتِ ارادہ   اور نظم واحد کی دلیل ہےجس کا مطلب  اور نتیجہ ہے کہ  مدبر واحد موجود ہے اور وہ تنہا و یکتا ہے۔

 پانچویں دلیل: دلیلِ فطرت (Innate Knowledge Argument) :     قرآن کہتا ہے: فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَاسورۃالروم: 30)۔ امام غزالی فرماتے ہیں: "  وجود خدا بدیہی ہے، نظری نہیں " شک تعلیم سے آتا ہے، یقین فطرت سے” اسی لیے بچہ خدا کو جانتا ہے ، فلسفہ بعد میں آ کر انکار سکھاتا ہے۔

 چھٹی دلیل: دلیلِ نفس و شعور (Argumentfrom Consciousness):               قرآن سوال کرتا ہے: وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (سورۃالذاریات: 21 )۔         فلسفیانہ نکتہ: مادہ شعور نہیں رکھتا ۔ شعور، ارادہ اور اخلاق محض کیمیاوی تعامل نہیں لہٰذا انسان کا باطن ایک غیر مادی، علیم خالق کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔

قرآنی اسلوب کی عظمت (اہم نکتہ) قرآن خدا کو دلیل سے گھڑتا نہیں ۔ خدا کو مفروضہ بنا کر ثابت نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے: تم جانتے ہو، بس یاد کرو   سَنُرِیْهِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْاٰفَاقِ وَ فِیْٓ اَنْفُسِهِمْ (سورۃفصّلت: 53)

 اختتامیہ: علم الکلام کا خلاصہ ایک جملے میں کائنات کا ہونا اس کے نہ ہونے سے زیادہ اللہ تعالی کے ہونے کو لازم کرتا ہے یہی عقل کا فیصلہ ،فطرت کی گواہی، قرآن کا اسلوب اور متکلمین کا طریقہ ہے۔

 

9 comments:

  1. Awesome Zain keep it up. It's a very important subject

    ReplyDelete
  2. الحمدللہ
    ان شاءاللہ تعالیٰ ذی عقل و ذی شعور کو اس آرٹیکل سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا
    ا

    ReplyDelete
  3. اللّٰہ کریم اس ادارہ کو دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم الامین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ واصحابہ وسلم

    ReplyDelete
  4. ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  5. بہت اچھی کاوش ہے اللہ برکتوں سے نوازے

    ReplyDelete
  6. ماشاءاللہ بہت عمدہ تحقیق کی گئی ہے

    ReplyDelete

Thanks for Visiting Us. آپ اپنی بہترین رائے سے ہماری حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں، اور کام میں مزید بہتری کے لیے ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ بس ایک کمنٹ کر دیں شکریہ