شعور اور جذبات کے درمیان توازن
انسان
کی حقیقت دو جہانوں کے ملاپ سے بنی ہے—ایک جہانِ عقل و شعور، اور دوسرا جہانِ
دل و جذبات۔ یہ دونوں انسان کے اندر دو دریاؤں کی طرح بہتے ہیں؛ جب یہ سکون و
توازن کے ساتھ بہہ رہے ہوں تو انسان کی شخصیت میں روشنی، بصیرت اور اخلاقی
کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب ان میں سے کوئی ایک طغیانی میں آ جائے، تو انسان
کی پوری باطنی دنیا اضطراب اور اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔
دماغ
اور دل، یعنی عقل و شعور اور جذبات کے درمیان ایک فطری بیلنس اور توازن قائم ہے۔
اس توازن کے بگاڑ سے اخلاقی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اگر عقل و شعور حد سے بڑھ جائیں
اور جذبات کو دبا دیں تو انسان کے اندر رواداری، نرمی، ہمدردی اور اخلاقی لطافت کا
قتل عام ہو جاتا ہے۔ اور اگر جذبات حاوی ہو جائیں تو پھر اصول، قانون اور ضبطِ نفس
کا قتل عام شروع ہو جاتا ہے۔ صوفیاء کہتے ہیں کہ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان ظاہر میں
تو زندہ رہتا ہے، لیکن باطن میں مر جاتا ہے۔
اسلام کا تربیتی نظام
اسلام
کا پورا تربیتی نظام اسی داخلی توازن کو درست رکھنے کی ضمانت دیتا ہے۔ نماز میں
خشوع جذبات کو پاک کرتا ہے، اور رکوع و سجود عقل کو جھکنا سکھاتے ہیں؛ روزہ جذبات
کو قابو میں کرتا ہے، اور تقویٰ عقل کو روشنی دیتا ہے؛ ذکر دل کو گرم رکھتا ہے،
اور فکر عقل کو بیدار رکھتی ہے۔ یوں دین انسان کے دونوں جہانوں کو ایک لڑی میں پرو
دیتا ہے۔اسلام ایک طرف تو قصاص کو عقل مندوں کے لیے زندگی قرار دیتا ہے لیکن دوسری
طرف مقتول کے ورثاء کو یعنی قصاص لینے والوں کو معاف کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
توازن بگڑنے سے پیدا ہونے والی بیماریاں
لیکن جب یہ توازن بگڑنے لگے تو انسان کے
اندر ایک خطرناک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب دل اور دماغ کا
یہ توازن ٹوٹ جاتا ہے تو انسان کے اندر ایک اور خاموش زوال شروع ہوتا ہے— وہ زوال
جو بظاہر نظر نہیں آتا، مگر انسان کی باطن کی دنیا کو کھوکھلا کرنے لگتا ہے — جب
انسان اپنے اندر اس توازن کو کھو دیتا ہے، تو وہ دراصل اپنے آپ سے دور ہو جاتا ہے۔
پھر!!!
وہ جو سوچتا ہے، وہی حق سمجھتا ہے؛
جو چاہتا ہے، وہی حقیقت مانتا ہے؛
اور جو پسند کرتا ہے، اسی کو معیار
بنا لیتا ہے۔
یہ
احساس کہ جو میں کر رہا ہوں وہی درست ہے، اور جو میں سمجھتا ہوں بس وہی صحیح ہے۔
صوفیاء اسے “نفس کا غرور” کہتے ہیں، اور یہ باطنی بیماریوں میں سب سے شدید بیماری
ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا شخص حقیقت کو ویسے نہیں دیکھتا جیسی وہ ہے؛ وہ اسے ویسے دیکھتا
ہے جیسا وہ چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان تجزیہ کرنے کی قدرت کھو دیتا ہے،
راہِ حق اور راہِ باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت ماند پڑ جاتی ہے، اور نفس اس کا
رہنما بن بیٹھتا ہے۔
پھر
انسان اپنے ہی دل و دماغ پر کنٹرول کھو بیٹھتا ہے۔ اس کے جذبات اسے جہاں کھینچتے ہیں
وہاں چل پڑتا ہے، اور اس کا شعور جس طرف بھی کوئی رائے دے، وہ اسے بلا تحقیق قبول
کر لیتا ہے۔ یوں انسان اپنی ہی عقل و جذبات کا غلام بن جاتا ہے۔ نہ جذبات اس کے
تابع رہتے ہیں اور نہ عقل اس کی رہنمائی کرتی ہے؛ وہ دونوں کے درمیان ٹکڑے ٹکڑے ہو
جاتا ہے۔
صوفیاء اس کیفیت کو ’’نفس کی اندھیری رات‘‘
کہتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کی آنکھیں کھلی
ہوتی ہیں مگر بصیرت سو رہی ہوتی ہے؛ زبان بول رہی ہوتی ہے مگر دل خاموش ہوتا ہے؛
دماغ سوچ رہا ہوتا ہے مگر روح بھٹکی ہوئی ہوتی ہے۔
اسی لیے اہلِ معرفت نے ہمیشہ یہ تعلیم دی
ہے کہ اصل انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنے سامنے کھڑا کرکے اس سے پوچھ سکے کہ جو
تو کر رہا ہے، وہ درست ہے یا غلط؟
یہ پوچھنے کی توفیق ہی رب کی طرف سے ایک
مہربانی ہے، کیونکہ جب انسان خود کو پرکھنا چھوڑ دیتا ہے تو دنیا کی کوئی دلیل،
کوئی نصیحت اور کوئی حکمت اسے سیدھا نہیں کر سکتی۔
جب دل و دماغ کا یہ توازن قائم ہو جاتا ہے
انسان
کی اصل آزادی یہی ہے کہ وہ اپنے جذبات اور عقل کو اپنی رہنمائی کے لیے استعمال
کرے، نہ کہ ان کا غلام بن جائے۔ اور جب دل و دماغ کا یہ توازن قائم ہو جاتا ہے، تو
پھر انسان کے اندر نور اترنے لگتا ہے۔ اس کی عقل حکمت میں بدل جاتی ہے، اس کے
جذبات محبت میں ڈھل جاتے ہیں، اور اس کی زندگی میں سکون اور بصیرت کا چراغ جل
اٹھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جسے صوفیاء ’’انسانِ کامل کا اوّلین دروازہ‘‘ کہتے ہیں—جہاں
انسان خود کو بھی پہچان لیتا ہے اور اپنے رب کو بھی۔
جو دل صرف جذبات پر چلتا ہو، وہ طغیانی ہے۔
جو
عقل صرف دلیل پر چلتی ہو، وہ سنگ دلی ہے۔
اور جو روح ان دونوں کو ضبط میں نہ رکھ سکے، وہ
گمراہی ہے۔
اسی
لیے ربِّ کریم نے انسان کو قلب بھی دیا، عقل بھی دی، اور وجدان بھی— تاکہ انسان ان
تینوں کو ایک مرکز پر لا کر سیر الی اللہ کا سفر شروع کرے۔
صوفیانہ تربیت کا مقصد یہی ہے کہ:
دل کی بے مہار جذباتیت کو صفا دیا جائے
عقل کی خشک دلیل پرستی کو وفا دی جائے
اور روح کی آگہی کو جلا دی جائے
تاکہ انسان نفس کی غلامی سے نکل کر روح کی آزادی
میں داخل ہو جائے۔
جب
انسان اپنے اندر اس توازن کو پا لیتا ہے تو:
جذبات بندگی میں نرم ہو جاتے ہیں
عقل حقیقت کے سامنے جھک جاتی ہے
اور روح اپنے رب سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے
پھر انسان وہ نہیں کرتا جو اسے اچھا لگے بلکہ وہ کرتا ہے جو حق ہو۔
صوفیہ فرماتے ہیں کہ: جو انسان اپنی رائے
کا اسیر ہو جائے، وہ حقیقت سے محروم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ حق وہ نہیں جو میں سوچوں؛ حق
وہ ہے جو دل کو سکون دے، عقل کو قانع کرے، اور روح کو پاکیزگی عطا کرے۔
باطن کے اندھے پن کی ابتدا
جب دل جذبات کا غلام بن جائے اور دماغ خواہشات
کا خادم بن جائے تو انسان اپنے باطن کی روشنی کھو بیٹھتا ہے۔
اس
کے فیصلے اس کے اندر سے نہیں آتے، وہ باہر کی آوازیں، خواہشات اور انا کے سائے سے
متاثر ہونے لگتا ہے۔ وہ محسوس کیے بغیر فیصلہ کرتا ہے، سوچے بغیر قدم اٹھاتا ہے،
اور سمجھے بغیر ردّ عمل دیتا ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں صوفیہ کہتے ہیں: انسان خود کا مالک نہیں رہتا… بلکہ اپنے نفس کا اسیر ہو جاتا ہے۔
” جب
خواہش انسان کے دل میں جگہ بنا لے تو جذبات کو بھی اپنی طرف موڑ لیتی
ہے، اور عقل کو بھی۔ پھر انسان سمجھتا ہے کہ جو میں چاہتا ہوں، وہی صحیح ہے… اور یہی
سب سے بڑا پردہ ہے جو انسان اور اُس کی اصل حقیقت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت
میں انسان کے اندر ایک عجب قسم کی بےچینی پیدا ہوتی ہے، ایک اندرونی انتشار… اور
وہ انتشار انسان کو نہ خود سمجھنے دیتا ہے نہ دوسروں کو۔ پھر وہ اپنے نفس کے شور
کو حق کی آواز سمجھ بیٹھتا ہے۔ نفس کہتا ہے “یہ ٹھیک ہے”، تو انسان کہتا ہے “ہاں،
ٹھیک ہے”… نفس کہتا ہے “یہ غلط ہے”، تو انسان کہتا ہے “ہاں، غلط ہے”… اور یوں بندہ
حق کا نہیں، اپنی خواہش کا مرید بن جاتا ہے۔
پھر رفتہ رفتہ دل پر زنگ چڑنے لگتا ہے… عقل
پر دھند چھا جاتی ہے… اور انسان کے اندر وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو اسے حق و باطل
میں فرق سمجھا سکے۔
ایسی
حالت میں انسان کو سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنا پڑتا ہے۔ خود سے پوچھنا پڑتا ہے:
“میں
کون ہوں؟ میں کیا چاہتا ہوں؟ اور جو چاہتا ہوں، وہ میرے رب کی مرضی ہے یا میرے نفس
کی؟
” یہی سوال انسان کو واپس توازن کی طرف لے
جاتا ہے۔ کیونکہ توازن لوٹتا ہے خود احتسابی سے… اور خود احتسابی لوٹتی ہے اللہ کی
یاد سے… اور اللہ کی یاد لوٹتی ہے دل کے جاگنے سے۔ جب دل جاگ جائے تو جذبات بھی پاک
ہو جاتے ہیں… عقل بھی نور پکڑ لیتی ہے… اور انسان پھر اپنی اصل طرف لوٹنے لگتا ہے۔
صوفیاء فرماتے ہیں کہ جب دل اور دماغ کے
درمیان توازن ٹوٹ جائے، تو انسان دو چیزوں سے محروم ہو جاتا ہے:
بینش (Insight)
— یعنی حقیقت تک رسائی تمییز (Discernment) — یعنی صحیح اور غلط کے درمیان فرق۔

0 Post a Comment:
Post a Comment
Thanks for Visiting Us. آپ اپنی بہترین رائے سے ہماری حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں، اور کام میں مزید بہتری کے لیے ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ بس ایک کمنٹ کر دیں شکریہ