اسلامی شریعت کے بنیادی ڈھانچے
پر نظر ڈالی جائے تو اس کے تین بنیادی اجزاء—عقائد، عبادات اور معاملات—در حقیقت احکامِ
شرعیہ کی وہ تین سطحیں ہیں جن پر دین کا پورا نظام کھڑا ہے۔ یہ تقسیم کسی شخصی رائے
کا نتیجہ نہیں بلکہ قرآن وسنت اور فقہائے امت کے متفقہ فہم کا نچوڑ ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے، جو انسانی
زندگی کے ہر پہلو کو منظم اور پاکیزہ بنانے کے لیے ہدایات دیتا ہے۔
اس کی تعلیمات کے تین بڑے اور بنیادی شعبے ہیں:
عقائد
، عبادات ، معاملات
یہ تینوں حصے باہم جڑے ہوئے ہیں اور ایک مکمل اسلامی شخصیت کی تشکیل انہی کے توازن سے ہوتی ہے۔ تینوں ہی آپس میں لازم و ملزوم ہیں عقائد بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اور بنیادی لازمی عنصر ہیں، عبادات کا تعلق اللہ تعالی کے سات ہے اور معاملات کا تعلق انسان کا انسان کے ساتھ ہے، عقائد ان دونوں پورشنزکو کنٹرول کرتے ہیں۔ عقائد کا تعلق انسانی ادراک اور نظریے سے ہے جبکہ عبادات و معاملات کا تعلق انسان کے عمل سے ہے ، یعنی عقیدہ تھیوری ہے جبکہ عبادات و معاملات پریکٹیکل ہے، عبادات کا کا دائرہ کار مختصر ہے جبکہ معاملات کا دائرہ کار انسان کی ساری زندگی پر محیط ہے، عبادات و معاملات میں جہاں تک تعلق ہے کہ عبادات نہ کرنے سے معاملات میں ایمان داری اور دیانت داری کو کوئی نقصان نہیں ہوتا یعنی یہ اسلامی تعلیمات میں کہیں نہیں کہا گیا کہ اگر نماز نہیں پڑھی تو آپ کی دیانت داری بھی ضائع ہو جائے گی، لیکن یہ ضرور موجود ہے کہ اگر نماز پڑھی اور مال جھوٹ بول کر کمایا تو کمائی حرام ہو جائے گی اور نماز روزہ ، حج زکوۃ کچھ بھی قبول نہیں ہو گا، ۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ عبادات سے معاملات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اور دوسری بات یہ کہ اللہ جل شانہ کو معلوم ہے کہ لوگ نمازیں اور عبادات تو خشوع و خضوع سے کریں گے لیکن معاملات میں ڈنڈی ماریں گے ، تو ہمیں معاملات پر توجہ دینی ہے۔
عقیدہ دراصل انسانی نظریہ، ذہنی کیفیت اور دل کی کیفیت کا نام ہے۔ قرآن کریم میں ایمان کو موفقیتِ دنیا و آخرت کی بنیاد قرار دیا گیا:
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْ
نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ الْكِتٰبِ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ-وَ مَنْ
یَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ وَ الْیَوْمِ
الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا(سورۃ النساء:136)
اے
ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری
اور اس کتاب پر جو اس سے پہلے نازل کی (ان سب پرہمیشہ) ایمان رکھو اور جو اللہ اور
اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور قیامت کو نہ مانے تو وہ ضرور
دور کی گمراہی میں جاپڑا۔
حدیث
نبوی
ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر،
اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر پر ایمان لائے…
عقیدہ
انسان کی پوری عملی زندگی کو کنٹرول کرتا ہے—یہی وجہ ہے کہ اسلام میں عقائد کی اصلاح
کو سب سے پہلے اور سب سے بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔
عبادات
اور اسلام ۔۔۔۔اسلام میں عبادات
کا باب محض چند ظاہری اعمال کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ بندے اور رب کے درمیان تعلقِ عبدیت
کا زندہ مظہر ہے۔ عقائد انسان کے باطن کو درست کرتے ہیں، معاملات انسان کے معاشرے کو
منظم کرتے ہیں، جبکہ عبادات انسان کے باطن کو اللہ سے جوڑ کر اس کے ظاہر کو نورانیت
عطا کرتے ہیں۔ یوں عبادات وہ عملی نظام ہیں جو ایمان کو زندہ رکھتے اور معاملات کو
درست سمت عطا کرتے ہیں۔ عبادات کا حقیقی مقصد صرف رسومات کی ادائیگی نہیں بلکہ اللہ
تعالیٰ کی بندگی، اس کی یاد، اور اس کی اطاعت کے شعور کو زندگی میں راسخ کرنا ہے۔ قرآن
کریم نماز کے مقصد کو یوں بیان کرتا ہے: ﴿إِنَّ
الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ﴾ (سورۃ العنکبوت:
45) یعنی بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نماز
کا مقصد محض قیام و سجود نہیں بلکہ اخلاقی اصلاح بھی ہے۔ اگر نماز انسان کو گناہوں
سے نہ روکے تو وہ حقیقی روح سے محروم ہو چکی ہے۔
اسی طرح روزہ محض بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ
نفس کی تربیت اور تقویٰ کی مشق ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ
الصِّيامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ: 183) یعنی
روزہ تم پر فرض کیا گیا تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ یہ آیت روزے کے حقیقی ہدف کو بیان
کرتی ہے کہ وہ انسان میں ضبطِ نفس، صبر اور اللہ کی یاد کو مضبوط کرتا ہے۔
زکوٰۃ
عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معاشی تطہیر کا نظام بھی ہے: ﴿خُذْ مِنْ
أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾ (سورۃ
التوبہ: 103) یعنی ان کے مال سے صدقہ لے کر انہیں پاک اور صاف کر دو۔
یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ زکوٰۃ مال کی
عبادت بھی ہے اور نفس کی صفائی کا ذریعہ بھی۔
حج کو
قرآن کریم نے اجتماعیت، مساوات اور بندگی کا عظیم مظہر قرار دیا: ﴿وَأَذِّنْ
فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ﴾ (سورۃ الحج: 27) حج انسان کو یاد دلاتا ہے کہ: سب برابر ہیں
سب اللہ کے محتاج ہیں سب ایک ہی لباس اور حالتِ عبدیت میں کھڑے ہیں۔
رسولِ
اکرم ﷺ نے عبادات کی روح کو یوں بیان فرمایا: "کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنہیں
روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں" (ابن ماجہ) اور فرمایا: "وہی
نماز قبول ہوتی ہے جو بے حیائی سے روکے۔" یہ احادیث اس حقیقت کی طرف اشارہ ہیں
کہ عبادات کا قبول ہونا اس وقت بامعنی بنتا ہے جب ان کے اثرات انسان کے اخلاق و کردار
میں ظاہر ہوں۔
اسلامی
نقطۂ نظر سے عبادات اور معاملات الگ الگ دائرے نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ عبادات
انسان کو معاملات میں دیانت دار بناتی ہیں، اور معاملات عبادات کی صداقت کا آئینہ ہوتے
ہیں۔ اگر عبادات ہوں مگر معاملات خراب ہوں تو عبادات کی روح مجروح ہو جاتی ہے، اور
اگر معاملات درست ہوں مگر عبادات نہ ہوں تو روحانی تعلق منقطع ہو جاتا ہے۔ اسی لیے
قرآن کریم میں بار بار عبادت کے ساتھ عدل اور اخلاق کا ذکر آتا ہے، تاکہ انسان کا دین
مسجد کے سجدے سے بازار کے ترازو تک ایک ہی معیار پر قائم رہے۔
اسلام
نے انسانی معاملات—یعنی سچائی، دیانت،
خریدوفروخت، وعدہ پورا کرنا، حقوق العباد، خاندان، معاشرت—کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔
﴿وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِينَ، الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا
عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ، وَإِذَا كَالُوهُمْ أَوْ وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ﴾ (سورۃ
المطففین:۱۔۳)
یعنی
ماپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے تباہی ہے۔کہ جن وہ مال لیتے ہیں تو پورا پورا
برابر لیتے ہیں اور جب دوسروں کو دینے کے لیے وزن کرتے ہیں تو کمی کرتے ہیں۔
حدیث
مبارک “تاجرِ صادق و امین قیامت کے دن انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔”
یہ اس
بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے معاملات کو محض سماجی ضرورت نہیں بلکہ ایمانی تقاضہ قرار
دیا ہے۔
اسلامی
تعلیمات واضح کرتی ہیں کہ اگر عبادات ہوں مگر معاملات درست نہ ہوں تو عبادات قبول نہیں
ہوتیں۔
“اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ” —اللہ فساد کرنے والوں کے عمل کو درست نہیں کرتا۔
“جس نے حرام کمائی سے گوشت پیدا کیا، اس کے لیے جنت حرام ہے۔”
“جو
حرام کماتا ہے، اللہ نہ اس کی نماز قبول کرتا ہے نہ حج۔”
وعدہ
پورا کرنا “اوفوا بالعقود” (سورۃ المائدہ: 1)
﴿وَأَوْفُوا
بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا﴾(سورۃ
الاسراء:۳۴)
اور
عہد کو پورا کرو بے شک عہد یعنی وعدوں کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔
سچ بولنا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “سچ نیکی کی طرف
لے جاتا ہے…” (بخاری)
جھوٹ، دھوکے کی حرمت “جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں
سے نہیں۔” (مسلم)
بھائی
چارہ، ایثار، حسنِ اخلاق “مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ
رہیں۔” (بخاری)
﴿اِنَّ اللّٰهَ يَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ
وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ﴾(سورۃ النحل:۹۰)
بے
شک اللہ تعالی عدل ، احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے
حیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ
بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰى أَنفُسِكُمْ﴾(سورۃ النساء:۱۳۵)
اے
ایمان والو اللہ تعالی کے لیے سچی گواہی دینے والے بنو چاہے تمہارے اپنے خلاف ہی
کیوں نہ ہو۔
﴿وَأَوْفُوا
الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ﴾ (سورۃ الانعام:۱۵۲)
پیمانے
کو پورا کرو اور میزان انصاف کے ساتھ کرو
﴿يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلٰى أَجَلٍ مُّسَمًّى
فَاكْتُبُوهُ﴾(سورۃ البقرۃ:۲۸۲)
اے
ایمان والو جب تم ایک دوسرے کے ساتھ لین دین کرو مقررہ مدت تک کے لیے تو لکھ لیا
کرو۔
﴿وَلَا
تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ﴾ (سورۃ ھود:۸۶)
اور لوگوں کو
ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو
﴿وَقُولُوا
لِلنَّاسِ حُسْنًا﴾(سورۃ البقرۃ:۸۳)
اور لوگوں
سے اچھی بات کہو
﴿إِنَّ
اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾(سورۃ الحجرات:۹)
بے
شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے
﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ
أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا
تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ
وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا
تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ
وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾(سورۃ الانعام:۱۵۱)
تم
فرماؤ، آؤ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں جو تم پر تمہارے رب نے حرام کیا وہ یہ کہ اس کے
ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور مفلسی کے باعث
اپنی اولاد قتل نہ کرو، ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے اور ظاہری و باطنی بے
حیائیوں کے پاس نہ جاؤ اور جس جان (کے قتل) کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے ناحق نہ
مارو۔ تمہیں یہ حکم فرمایا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ۔
خلاصہ
ونتیجہ
اسلامی شریعت کا نظام محض چند عبادات یا اخلاقی ہدایات کا مجموعہ
نہیں بلکہ ایک کامل ضابطۂ حیات ہے جو انسانی فکر، عمل اور معاشرت تینوں کو متوازن بناتا
ہے۔ عقائد انسان کو فکری استحکام دیتے ہیں، عبادات بندے کو اللہ سے جوڑتی ہیں، اور
معاملات انسان کو معاشرے میں باوقار بناتے ہیں۔ یہ تینوں شعبے ایک ہی زنجیر کی کڑیاں
ہیں، جن میں سے کوئی ایک بھی غائب ہو تو دین کی مکمل تصویر سامنے نہیں آتی۔ اگر عبادات
ہوں مگر معاملات درست نہ ہوں تو دین بے روح ہو جاتا ہے، اور اگر معاملات ہوں مگر عقائد
کمزور ہوں تو اسلامی شناخت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ ایک سچا مسلمان وہی ہے جو عقیدے
میں مضبوط، عبادت میں مخلص اور معاملات میں عادل ہو۔ یہی توازن اسلامی تعلیمات کا حسن
ہے اور اسی میں دنیا و آخرت کی فلاح مضمر ہے۔





